قسمت پرستی
تقدیر پسندی سنی اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے، اور اس کا نظریہ بنیادی طور پر قرآن و حدیث پر مبنی ہے۔ تقدیر کا مسئلہ اسلام کے ابتدائی سالوں میں ایک متنازعہ تھا اور سنیوں اور شیعوں کے درمیان تقسیم کا ایک بڑا موضوع تھا۔ سنی اسلام کا خیال ہے کہ اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور کائنات میں موجود تمام چیزوں کی نوعیت، شکل اور افعال کا تعین کر
تا ??ے اور جو چیزیں موجود ?
?یں اور ر?
?یں گی وہ اللہ کی مرضی کے تابع ہیں، او?
? اللہ دنیا کے ماضی، حال اور مستقبل کو جان
تا ??ے۔ حدیث کے مطابق تخلیق سے پہلے یہ سب کچھ پتھر کی تختی پر لکھا گیا تھا، جس میں ہر شخص کی عمر، زندگی، سلوک، عزت و ذلت شامل تھی۔
سنی اور شیعہ دونوں اس بات پر متفق ?
?یں کہ خدا لامحدود طاقتور ہے اور بنی نوع ا?
?سا?? کی تقدیر کو جان
تا ??ے۔ ا?
?سا?? ن?
?یں جانتے کہ اللہ کیا جان
تا ??ے اس لیے ان?
?یں ایسی باتیں دریافت کرنے سے گریز کرنا چاہیے جو ان کی سمجھ سے باہر ہیں۔ اوریکل کو نظر انداز کرنے والوں کو ان کے آزادانہ اعمال کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جا
تا ??ے۔ اس کے علاوہ، لوگوں کی عبادت اللہ کی دعوت پر مبنی ہے، اور ان کی عبادت پ?
? اللہ کا ردعمل حالات کو بدل سک
تا ??ے۔ تاہم، شیعوں کے برعکس جو اس بات پر یقین رکھتے ?
?یں کہ لوگ آزاد ارادہ رکھتے ?
?یں اور وہ اپنی تقدیر کو خود کنٹرول کر سکتے ہیں، سنیوں کا خیال ہے کہ یہ خیال کہ ا?
?سا?? خدا کے کنٹرول سے بالاتر ہو سکتے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ اگرچہ خدا قادر مطلق اور ہر چیز کا مالک ہے، پھر بھی ا?
?سا?? اپنے اعمال کے خود ذمہ دار ہیں۔
اشعری اس بات کی طرف اشارہ کرتے ?
?یں کہ جانداروں میں خدا کی طرف سے دی گئی صلاحیتیں اور انتخاب ہوتے ?
?یں اور وہ ان صلاحیتوں اور انتخاب کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ اس سارے عمل کے دوران، خدا ایک فعال فریق ہے، لیکن جاندار بھی ان صلاحیتوں اور انتخاب کے مطابق عمل کریں گے جو اس نے اپنے اندر پیدا کی ہیں، اس لیے ا?
?سا??وں کو اپنے اعمال کے لیے خود ذمہ دار ہونے کی ضرورت ہے۔ اس نے ا?
?سا??ی رویے کو دو قسموں میں تقسیم کیا: خدا کی طرف سے تخلیق کردہ غیر ارادی رویے، جن پر ا?
?سا?? قابو ن?
?یں پا سکتے، جیسے تھرتھراہٹ اور ایس?
? رویے جن?
?یں ا?
?سا?? آزادانہ طور پر استعمال کر سک
تا ??ے، جو کہ خدا کے بنائے ہوئے ہیں۔ Maturidi کا خیال ہے کہ ا?
?سا?? کی انتخاب کرنے کی صلاحیت سے مراد ا?
?سا?? کی آزاد مرضی کی عکاسی ہوتی ہے جیسے کہ سوچ اور ضروریات خدا کے زیر کنٹرول ہیں۔
انصاری کا ماننا تھا کہ ا?
?سا??وں کا انتخاب دیا گیا ہے۔ اگرچہ بعض اوقات ا?
?سا??وں کے منتخب کردہ اعمال آزاد مرضی کا نتیجہ معلوم ہوتے ہیں، لیکن اس کا خیال ہے کہ اس طرح کے انتخاب "ذاتی مرضی کے مطابق سوچ" ہوتے ?
?یں اور ا?
?سا??ی مرضی سوچ کا مظہر ہے، اس لیے یہ بالکل آزاد ن?
?یں ہے۔ انصاری بتاتے ?
?یں کہ ا?
?سا?? کی مرضی، قابلیت اور حقیقی اعمال سبھی دیے گئے ?
?یں اور عزم سے الگ ن?
?یں ہیں۔ استدلال، وحی اور رہنمائی ا?
?سا??وں کو اچھے اور برے کے درمیان انتخاب کرنے میں مدد دے سکتی ہے اور یہی وہ اسباب ?
?یں جو مسلمانوں کو خوشی یا مصیبت کی طرف لے جاتے ہیں۔
محمد عبدو اور دیگر کی قیادت میں سنی اصلاح پسندوں نے ایک نیا نظریہ پیش کیا جو ابتدائی اشعری فرقے کے نظریات کے قریب تھا اور پیچیدہ جدلیات کو ترک کر دیا تھا۔ ا?
?سا??ی رویے کے بارے میں، ابودو نے تجویز پیش کی کہ "وہ ا?
?سا??ی غیر فعال قبولیت اور فعال انتخاب کا مشترکہ نتیجہ ہیں"، لیکن اس نے خدا کی مرضی اور ا?
?سا??ی آزادانہ مرضی کے درمیان تعلق کے تفصیلی مطالعہ کی سفارش ن?
?یں کی، کیونکہ یہ صرف مذہبی اختلافات کو جنم دے گا۔